حکومتی اراکین اور ن لیگ کے سینئر رہنماؤں نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کی مشروط رضامندی ظاہر کرتے ہوئے سول نافرمانی کا اعلان واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔
وزیر اعظم کے مشیر اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما رانا ثنا اللہ نے ک??ا ہے ک?? جب ہم نے مذاکرات کی پیش کش کی تو پی ٹی آئی نے جواب میں کہا کہ حکومت کی کوئی اوقات نہیں، سیاسی جماعت سے رابطے کا مطلب مذاکرات نہیں تاہم ایک میز پر بیٹھ کر ہی بات چیت سے حل نکالا جاسکتا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے ک??ا کہ سیاسی جماعتوں میں رابطے ??و کبھی بھی ختم نہیں ہوتے، رابطے ??و رہتے ہیں لیکن رابطے کو مذاکرات نہیں کہہ سکتے ہیں۔
انہوں نے ک??ا کہ اسلام آباد آتے وقت تک پی ٹی آئی سے رابطے میں تھے مگر ان رابطوں کو مذاکرات نہیں کہا جا سکتا، جب ہم نے مذاکرات ??ا کہا کہ تو انہوں نے ک??ا کہ آپ کی اوقات اور حیثیت کیا ہے جو مذاکرات کریں۔
رانا ثنا اللہ نے ک??ا کہ وزیر اعظم نے ڈیڑھ مہینہ پہلے فلور آف دی ہاؤس پر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی آفر کی اور کہا تھا کہ آئیں بیٹھ کر بات کریں، اب ہم نے سنا ہے ک?? پی ٹی آئی نے ہم سے ہی مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے تاہم اس سے پہلے وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کر رہے تھے، مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھا ??ائے تو حل سامنے آتے ہیں۔
سی??یٹ میں پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی نے ک??ا کہ سول نافرمانی کی تحریک لٹ??ا کر مذاکرات نہیں ہوسکتے، تحریک انصاف کو پرانے طریقے ختم کرنا ہوں گے۔
انہوں نے ک??ا کہ اگر پی ٹی آئی بات کرنا چاہتی ہے تو بسم اللہ ہم تیار ہیں مگر تحریک انصاف کو اعتماد بحال کرنا ہوگا۔
سی??یٹ میں پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے ک??ا کہ گفتگو کے دروازے بند نہیں ہونے چاہیئں، اعتماد کی فضا ہوئی تو مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں اور حکومت اس فضا کو بڑھا ??کتی ہے۔
سینیٹر طلال چوہدری نے مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ڈرامہ اور جھانسہ قرار دیتے ہوئے ک??ا کہ مذاکرات فیض حمید کو بچانے ک??لیے مذاکرات کی کوشش کی جارہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی نے ایک بار پھر خبردار کیا کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور مذاکرات کرے، اگر حکومت نے مذاکرات میں پہل نہ کی تو 14 دسمبر سے سول نافرمانی کیلیے تیار ہوجائیں۔